۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
ستائسواں

حوزہ/ خدایا اس مہینے میں مجھے شب قدر کی فضیلت نصیب فرما، اور اس میں میرے امور و معاملات کو سختی سے آسانی کی طرف پلٹا دے، میری معذرتوں کو قبول فرما اور گناہوں کا بھاری بوجھ میری پشت سے اتار دے، اے نیک بندوں پر مہربانی کرنے والے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی ماہ رمضان کے ستائسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔ ’’أللّهُمَّ ارْزُقني فيہ فَضْلَ لَيلَة القَدرِ وَصَيِّرْ اُمُوري فيہ مِنَ العُسرِ إلى اليُسرِ وَاقبَلْ مَعاذيري وَحُطَّ عَنِّي الذَّنب وَالوِزْرَ يا رَؤُفاً بِعِبادِہ الصّالحينَ‘‘
خدایا اس مہینے میں مجھے شب قدر کی فضیلت نصیب فرما، اور اس میں میرے امور و معاملات کو سختی سے آسانی کی طرف پلٹا دے، میری معذرتوں کو قبول فرما اور گناہوں کا بھاری بوجھ میری پشت سے اتار دے، اے نیک بندوں پر مہربانی کرنے والے۔
شب قدر کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی کے نام پر سورہ قدر کو نازل کیا اور اس میں اس شب کے فضائل اور اہمیت کو بیان کیا۔ ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ۔ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ۔ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ۔ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ‘‘ بےشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا۔ اور تم کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے (سال بھر کی) ہر بات کا حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ (رات) سراسر سلامتی ہے طلوعِ صبح تک۔ (سورہ قدر)
صاحبان ایمان کو سال بھر اس شب کا انتظار رہتا ہے تا کہ اس کی فضلیتوں سے کسب فیض کریں ۔ اسلامی معارف میں اس کی فضلیت اور اس کے بے شمار فوائد کا تذکرہ ملتا ہے ۔ جنمیں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ شب مغفرت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جو بھی شب قدر میں شب بیداری کرے، اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو تو اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (تفسیر منهج الصادقین، ج 10، ص 308)
یعنی انسان کو چاہئیے اس شب میں استغفار کرے، اپنے گناہوں پر توبہ کرے تا کہ خدا اسے معاف کر دے۔
۲۔ قلب ماہ رمضان۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : شب قدر ماہ رمضان کا دل ہے۔ (بحارالانوار، ج 58، ص 376 ؛ امالی شیخ صدوقؒ، مجلس، 15، ح 4)
دیگر جسمانی اعضاء پر دل کو وہی حیثیت حاصل ہے جو امام کو امت پر حاصل ہوتی ہے۔ ماہ رمضان کی تمام تر عظمتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے جب ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث شریف کو پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ماہ رمضان جو تمام مہینوں کا امام ہے اس ماہ پر شب قدر کو امامت حاصل ہے۔
ظاہر ہے جس شب کا وجود اس قرآن کے نور سے منور ہو جو لوگوں کے لئے ہادی و رہبر ہو تو اس شب اور اس وقت کو بھی دوسرے تمام اوقات پر فضلیت حاصل ہوگی۔
۳۔ ہزار مہینوں سے بہتر۔ نص قرآنی کی روشنی میں یہ شب ہزار مہینوں سے افضل ہے تو اس شب میں جو نیک اعمال کئے جائیں گے وہ بھی ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہوں گے۔اور یہی حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا کا مفہوم ہے۔
۴۔ نزول قرآن۔ اسی شب میں قرآن کریم قلب پیغمبرؐ پر نازل ہوا ۔ وہ قرآن جسمیں ہر خشک و تر موجود ہے، جس کی ایک آیت کا جواب ممکن نہیں ۔ لہذا اس شب کی فضیلت کے لئے قرآن کریم سے وابستگی ضروری ہے۔
۵۔ نزول ملائکہ۔ اس شب میں ملائکہ اور روح نازل ہوتے ہیں ۔ نتیجہ میں طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔
۶۔ حجت خدا کی خدمت میں اعمال پیش ہونا۔ روایات کی روشنی میں نہ صرف زمانہ پیغمبر ؐ میں بلکہ آپؐ کی وفات کے بعد آپ کے برحق جانشین کی خدمت میں ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ایک سال کے مقدرات پیش کرتے ہیں۔ اور یہی اللہ کے اولیاء اور حجتیں ہی شب قدر کے مالک و صاحب ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک طولانی حدیث منقول ہے جسمیں آپؐ نے بیان فرمایا کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ خدا میں عرض کیا ۔ خدایا! میں تیرا قرب چاہتا ہوں ۔ ارشاد ہوا شب قدر میں سب بیداری کرو میرا قرب نصیب ہو گا۔
خدایا! تیری رحمت کا طالب ہوں۔ ارشاد ہوا کہ شب قدر میں مسکینوں پر رحم کرو (انکی امداد کرو) ہماری رحمت تمہارے شامل حال ہو گی۔
خدایا! پل صراط سے گذرنے کا جواز (ٹکٹ) چاہتا ہوں ۔ ارشاد ہوا شب قدر میں صدقہ دو۔
خدایا! جنت اور اسکی نعمتیں چاہتا ہوں۔ ارشاد ہوا شب قدر میں میری تسبیح پڑھو۔
خدایا! جہنم کی آگ سے نجات چاہتا ہوں۔ ارشاد ہوا شب قدر میں استغفار کرو۔
خدایا! تیری رضا(خوشنودی) کا طالب ہوں۔ ارشاد ہوا شب قدر میں نماز پڑھو۔ (وسایل الشیعہ۔ جلد۸، صفحی ۲۰)
’’وَصَيِّرْ اُمُوري فيہ مِنَ العُسرِ إلى اليُسرِ‘‘ اور اس میں میرے امور و معاملات کو سختی سے آسانی کی طرف پلٹا دے۔
انسانی زندگی میں جہاں آسائشیں ہیں وہیں پریشانیاں بھی ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ہر سختی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ ’’اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرا‘‘ یقینا ہر سختی کے ساتھ آسانی ہے۔ جس طرح دن کی روشنی کی قدر رات کے اندھیرے میں ہوتی ہے اسی طرح آسائشوں کی قدر سلب توفیق اور سختی میں ہوتی ہے۔ جس طرح ایک طالب علم امتحان کی تیاری میں دن رات لگا دیتا ہے۔ وہ پڑھنے میں اتنا مصروف ہوتا کہ نہ دن میں آرام کرتا ہے اور نہ ہی رات کو سوتا ہے۔ لیکن جب یہی طالب امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتا ہے تو اسے جو خوشی نصیب ہوتی ہے وہ قابل بیان نہیں ہوتی۔
’’وَاقبَلْ مَعاذيري‘‘ میری معذرتوں کو قبول فرما۔
معذرت کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان کو اپنی غلطی کا احساس اور اقرار ہے۔ لہذا بارگاہ خدا میں بندہ دعا کرتا ہے میرے مالک مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے اپنی غلطی کا احساس اور اقرار ہے لہذا میری معذرت کو قبول کر لے۔ جس طرح ہم خدا سے امید لگاتے ہیں وہ ہماری معذرت قبول کر لے ۔ اسی طرح ہمیں بھی دوسروں کی معذرت قبول کرنا چاہئیے۔
’’وَحُطَّ عَنِّي الذَّنب وَالوِزْرَ يا رَؤُفاً بِعِبادِہ الصّالحينَ‘‘ اور گناہوں کا بھاری بوجھ میری پشت سے اتار دے، اے نیک بندوں پر مہربانی کرنے والے۔
انسان بارگاہ خدا میں دعا کرتا ہے کہ خدایا ! میرے گناہوں کو معاف کر دے اور میری پشت جو گناہوں سے سنگین ہو گئی ہے اسے خالی کر دے۔ ظاہر ہے خدا کے سوا کون ہے جو انسان کے گناہ معاف کر سکے۔ کون ہے جو گناہوں سے سنگین پشت کو خالی کر سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ شعبانیہ میں ارشاد فرمایا: ’’اس ماہ میں اپنے گناہوں سے مغفرت کی دعا کرو تا کہ اللہ تمہیں بخش دے۔‘‘ اسی خطبہ میں فرمایا: ’’تمہاری پشت گناہوں سے سنگین ہو گئی ہے لہذا طولانی سجدے کرو تا کہ سنگینی کم ہو سکے۔
اس سے پہلے متعدد مقامات پر بیان کیا جا چکا ہے کہ جس طرح بندگی کے لئے توفیق الہی شرط ہے اسی طرح توبہ و استغفار کے لئے بھی توفیق لازم ہے۔ علماء ابرار کے بیانات اور تاریخی تجربات سے ثابت ہے کہ توفیق الہی کے لئے اہلبیت علیہم السلام سے توسل اور تمسک پہلی شرط ہے۔ جناب حر یزیدیت کے گناہوں کے دلدل میں تھے لیکن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا احترام اور امام حسین علیہ السلام سے تمسک نے ہمیشہ کے لئے انہیں علیہ السلام بنا دیا اور ان کا شمار ان شہداء میں ہوتا ہے جو دنیاکے دیگر شہداء سے افضل ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .